خُطبۃ الکتاب
فتاوی رضویہ جلد اول
نَحمدہ ونصَلی علٰی رسوُلہ الکریم
بعدازاں یہ اللہ کی حمد اللہ کی عطااللہ کی مدد اللہ کی حفاظت سے (بڑی برکت والا ہے اللہ ،اور برکت دے اللہ، جو چاہے اللہ، قوت نہیں مگر منجانب اللہ، ہمیں اللہ کافی ہے اور اچھا کام بنانے والا، کیا اچھا مولا اور کیا اچھا مددگار) بلند باغ ہیں جن کے انگوروں کے گچھے بوجھ کے سبب جُھک کرنزدیک آگئے ہیں اُن میں بلند تخت ہیں، اور رکھے ہوئے کوزے، اور قالینوں کی قطاریں، اور جابجارکھی ہوئی مسندیں دین ابراہیمی اور فقہ حنفی کے مسائل سے، اللہ چاہے تو تُو اس میں بہتا چشمہ پائے گا اگلے کریموں کی عمدہ تحقیقات سے، اور اُن کے ساتھ سبز غالیچے، اور منقش رنگین خوب صورت فرش پچھلے مشاہیر کی آرائشوں سے، اور ستھری دُلہنیں گویا وہ یاقوت ومرجان ہیں جن کو مجھ سے پہلے کسی آدمی یاجن نے ہاتھ نہ لگایا، نوپیدا چیزوں کے احکام، اور مفصل تحقیقوں، اور صحیح تنقیحوں، اور شاندار تدقیقوں، اور یکتا تائیدوں، اور احکام کی مضبوطیوں، اور اعتراضوں جوابوں سے جو بڑے علم والے بادشاہ نے مجھے الہام کیے علوم اکابر کی خدماگاری کی برکت سے، یہ جو میں کہہ رہاہوں اس کے ساتھ ہزاروں بیزاریاں ہیں اپنی قوت وطاقت سے، اور قسم قسم کی التجائیں ہیں عظمت والی قوت اور ازلی فضل ومنت کی طرف، اور ہزارہزار گواہیاں کہ قوت وقدرت نہیں مگر اللہ غالب والے کی عطا سے اور میں اپنے نفس کو بری نہیں بتاتا بیشک نفس لغزش وخطا کی طرف بکثرت گامزن ہوتا ہے تو اس کا کیاپوچھنا جو مجھ جیسا ہو میرے ظلم وجہل وکمی طاعت وخواری مایہ وکثرت گناہ، اور غلبہ عیوب میں مگر ہے یہ کہ اللہ جو چاہے کرتاہے اس کافضل بڑی گنجائش والا اور اس کے پاس زیادہ ہے، اللہ سے کچھ دور نہیں کہ عاجز کو قادر سے ملادے، توجوکچھ ان میں ٹھیک ہے (اور بڑے بخشنے والے سے اسی کی امید ہے) وہ صرف میرے رب کی طرف سے ہے اور میں اس پر اس کی حمد کرتاہوں اور جو غلطی ہو وہ مجھ سے اور شیطان کی طرف سے ہے، اور میں اپنے رب کی پناہ مانگتا اور اس کی طرف رجوع لاتا ہوں ہاں ہاں مَیں اپنے رب کی رضا کے لئے اس کی حمد کرتاہوں (اور وُہ مجھے کافی ہے) کہ کبھی میرے دل میں یہ خطرہ نہ گزرا کہ میں عالم ہوں یا فقہاء کے گروہ سے ہوں یا اماموں کے مقابل مجھے کوئی لفظ کہنا پہنچتا ہے یاحکم وحکمت شرع میں مجھے ان کے ساتھ کچھ مجال ہے میں تو اُن کانام لیواہوں اور ان کاطفیلی، انہیں سے لیتا اور فائدے پاتاہوں مجھ پر جو فیض آتاہے انہیں سے آتاہے۔ اس کی برکت سے مولانے مجھ پر دروازے کھول دئیے اور اسباب آسان کیے اور خداچاہے توہرمسئلہ میں حق کی طرف ہدایت فرمائے اور میں پہچانتا ہوں کہ مقلد کو کس جگہ اقول کہنا روا ہے تو میں اپنے ہی میدان میں جولان کرتا اور اُسی کی طرف پھرتاہوں اور میری مدد اور میری حفاظت نہیں مگر اللہ سے پھر نبی سے پھر ہمارے اماموں سرداروں مردان میدان علم سے، نبی پر اور ان پر وہ درودیں کہ کبھی زائل نہ ہوں توتواللہ تعالٰی کے شکر کے ساتھ وہ بہشتیں لے جن کے دروازے عقل والوں کے لئے کشادہ ہیں یہاں تک کہ جب وہ اُن تک آئے اور ان کے دروازے کھولے گئے اور ان سے ان بہشتوں کے خزانچیوں نے کہا تم پرسلامتی تم خوش رہو ان جنتوں میں آؤ امن پاتے، اور ان کے باغوں کے معزز انگورچُنتے، اور ان کے حوضوں کے نتھرے پانیوں سے سیراب ہوتے، اور ان کے گنجان درختوں کے سایہ عزت میں راحت لیتے اس وقت اُن اربابِ دانش کی خوشی بیان سے باہر ہے، بات یہ ہے کہ یہ فتاوے فقہ کی کتابوں اور بابوں پر مرتب کردئیے گئے ہیں تو ان سے مسئلہ نکالنا آسان اور احباب میں ان کا دست بدست دورہ رکھنا سزا وار ہو ا،اور عنقریب تو انھیں دیکھے گا کہ مکرر فتوے ان میں نہیں اُن کی حریم اس سے محفوظ رکھی گئی ہے کہ اور اہل زمانہ کے فتوے نقل کرکے گنتی اور کتاب کا حجم بڑھائیں بلکہ اُن میں خود میرے ہی فتوے پورے درج نہ ہوپائے آدھے ہوں گے یاکچھ زیادہ یاتہائی کم ہوگئے اور تہائی بہت ہوتی ہے، اور اُس کا سبب یہ ہے کہ میرے آقااور والد سایہ رحمت الٰہی، خاتمہ محققین، امام مدققین، فتنوں کے مٹانے والے، سنتوں کی حمایت فرمانے والے، ہمارے سردار ومولٰی حضرت مولوی محمدنقی علیخان صاحب قادری برکاتی نے (کہ اللہ عزوجل اُن کے مرقد کریم پر اب سے ہمیشہ تک اپنی رضا کے مینہ برسائے) مجھے چاردہم شعبان خیروبشارت کو فتوے لکھنے پرمامور فرمایا جب کہ سیّدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ۱۲۸۶ھ سال تھے اور اس وقت میری عمر کے چودہ برس پورے نہ ہوتے تھے کہ میری پیدائش ہجرت کے پاکیزہ روشن برسوں سے دہم شوال ۱۲۷۲ھ میں ہے تو میں نے فتوے دینا شروع کیا اور جہاں میں غلطی کرتا حضرت قدس سرہ اصلاح فرماتے اللہ عزوجل اُن کے مرقد پاکیزہ بلند کو معطرفرمائے، سات برس کے بعد مجھے اذن فرمادیا کہ اب فتوے لکھو اور بغیر حضور کو سنائے سائلوں کو بھیج دیاکروں، مگر میں نے اس پر جرأت نہ کی یہاں تک کہ رحمن عزوجل نے حضرت والا کوسلخ ذی القعدہ ۱۲۹۷ھ میں اپنے پاس بلالیا تو ان برسوں میں جوفتوے تقریباً ایک قرن کامل یعنی بارہ سال تک لکھے اُن کے جمع کرنے کاخیال نہ آیا اور اُس کے بعد پاس پاس کے شہروں اور دُور دراز کے ملکوں سے اگرسوال دس یازیادہ بارآیا توکتاب میں ایک ہی بار کاجواب درج کیا مگر کسی فائدے یازیادہ نفع کے لئے یابھول کر کہ آدمی بھول سے کم خالی ہوتا ہے، اور باآنکہ اتنے کثیر فتاوے جاتے رہے اور باقیوں میں اس قدر اختصار منظور رہا اب تک میرے فتاوے سات مجلد کبیر تک پہنچ گئے ہرجلدچودہ سوصفحہ کلاں سے سولہ سوکے اندر تک اور ہنوز جہاں تک وہ جُودوکرم والا چاہے افزائش ہی ہے، پس احباب نے مجلدات کاحجم بھاری دیکھ کر فتاوے کو بارہ جلدوں پر تقسیم کیا اور جو کچھ مولاتعالٰی اس کے بعد عطافرمائے گا وہ اس کی مدد اکبر سے عنقریب ذیل فتاوٰی ہوجائے گا اور میں نے اس کانام العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا اللہ اسے اپنی رضاکاوسیلہ بنائے اور دونوں جہان میں مجھے اور اپنے بندوں کو اس سے نفع پہنچائے اور اسے اپنے سب شہروں پرنفع رسانی کے لئے برسنے والے عظیم باران بنائے، مرادیں دینے والا، اس پرقبول کی نسیم چلائے اور ہرسخت جاہل جھگڑالوسے اسے بچائے، اس لئے کہ میں پروردگار صبح کی پناہ میں آیا اس کی تمام مخلوقات کے شر سے حاسد کی برائی سے جب وہ حسد کرے اور کینہ پر ور کے ضرر سے جب وہ کینہ رکھے، اے اللہ! جس نے تیری پناہ لی اُس نے بڑی عظمت والے کی پناہ لی، عزّت والا وہ ہے جسے توپناہ بخشے تیرے وجہ کریم کی تعریف کمال بزرگ ہے اس رافت ورحمت والے پیارے پر در ود وسلام وبرکت اتار اور ان کے آل واصحاب اور ان کے اولیاء وعلماء پر ہزاروں تعظیم کے ساتھ، اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچّا معبود نہیں، ایک اکیلا کوئی اس کا ساجھی نہیں، اور میں گواہی دیتاہوں کہ ہمارے مالک ہمارے مولٰی محمد اس کے بندے اُس کے رسول ہیں کہ اس نے انہیں رہنمائی اور سچے دین کے ساتھ بھیجا، اللہ تعالٰی ان پر درود وسلام نازل فرمائے اور اُن سب پر جو اُن کو پسند ہیں اور ہراس مسلمان پر جو اُن کی طرف التجالے جائے ہرآن ہمیشہ ہمیشہ اتنی کہ کوئی گن نہ سکے الہی قبول فرما۔
0 Comments