مد عا پر ۴۵ نصوص


 (۱۔۔۔۔۔۔۳) امام سر خسی کی محیط پھر فتاوی ہندیہ میں ہے ، ان دو ضابطوں کی معرفت ضروری ہے اول یہ ہے کہ جب ہمارے اصحاب ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد کسی بات پر متفق ہوں تو قاضی کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنی رائے سے ان کی مخالفت کرے ، دوم یہ کہ جب ان حضرات میں باہم اختلاف ہو تو عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا قول لیا جائے گا ، اس لئے کہ وہ تا بعین میں سے تھے اور تا بعین کے مقابلہ میں فتوی دیا کرتے تھے اھ۔


 (۱؎الفتاوی ہندیہ، بحوالہ محیط السرخسی کتاب اد ب القاضی الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۳۱۲)


ف: امامنا رضی اللہ تعالٰی عنہ من التابعین وقد زاحم ائمتہم فی الفتوی


زاد العلامۃ (۴) قاسم فی تصحیحہ ثم (۵) الشامی فی ردالمحتار فقولہ اسد واقوی مالم یکن اختلاف عصر وزمان ۱؎ اھ  (۴۔۔۔۔۔۵) یہاں علامہ قاسم نے تصحیح میں پھر علامہ شامی نے رد المحتار میں یہ اضافہ کیا : تو ان کا قول زیادہ صحیح اور زیادہ قوی ہوگا جب کہ عصر وزمانہ کا اختلاف نہ ہو ۔